موت کی کتاب خالد جاوید کا لکھا ہوا ناول ہے۔ یہ ایک حد درجہ مصیبت زدہ انسان کی کہانی ہے، جو آخر تک درد اور تکلیف سہتا ہے، مگر خودکشی کا خیال بار بار آنے اور اس پر قادر ہونے کے باوجود وہ اپنی زندگی کا خاتمہ خود نہيں کرتا،اس ناول میں ان لوگوں کی نفسیات کھل کر بیان کی گئی ہے، جن میں عمل کا فقدان ہوتا ہے.ناول کے مرکزی کردارمیں بے خوابی، وحشت، جنون، جنسیت، مرگی، جذام اور دیوانگی تک سب جمع ہیں۔ اس کی ماں میراثن ہے، باپ زمیں دار خاندان کا شہوت پرست، جسے شادی کے بعد گھر سے الگ رہنا پڑ رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کی بیوی کے ایک بھگوڑے فوجی سے ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے۔مرکزی کردار کو پہلی بار سرعام تشدد کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب وہ اپنی چھت سے، قدرے بڑی عمر کی لڑکی کو جنسی اشارے کرتے دیکھا گیا۔ بچپن ہی سے باپ بیٹا نفرت کی زنجیر سے بندھے ہیں، بیٹا باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں ایک جھگڑے کے بعد ماں غائب ہو جاتی ہے، بیٹے کے ساتھ باپ کا رویہ تبدیل ہوتا ہے لیکن زیادہ نہیں۔ جب بیماریاں اور بد فعلیاں بہت بڑھیں تو دوا دارو اور گنڈے تعویزوں کے بعد حل کے طور پر شادی کر دی گئی، جب کوئی چیز نہیں بدلی تو پاگل خانے پہنچا دیا گیا ،جہاں بجلی کے جھٹکوں سے علاج ہوا۔ اس کے بعد ہی اس پر پیدائش سے پہلے کا وہ منظر منکشف ہوتا ہے جو تب کا ہے، جب اسے ماں کی کوکھ میں آٹھواں مہینہ تھا اور اس کے باپ نے جبراً جنسی آسودگی حاصل کی تھی، ناول کا کردار خود کشی کرنا چاہتا ہے خود کشی اسے سب سے زیادہ عزیز ہے،شمیم حنفی نے اس ناول کو اردو زبان کے غیر معمولی کارنامے سے تعبیر کیا ہے۔ زیر نظر ناول کا ہندی ترجمہ ہے جس کو اکبر رضوی نے انجام دیا ہے۔
हिन्दवी उत्सव, 27 जुलाई 2025, सीरी फ़ोर्ट ऑडिटोरियम, नई दिल्ली
रजिस्टर कीजिए